انجيل مقدس

باب   21  22  23  24  25  26  27  28  29  30  31  32  33  34  35  36  37  38  39  40  41  42  

  ایّوب 21

1 تب ایوب نے جواب دیا:۔

2 غور سے میری بات سُنو اور یہی تمہارا تسلی دینا ہو۔

3 مجھے اِجازت دو تو میں بھی کچھ کہو نگا اور جب میں کہ چکوں تو ٹھٹھا مار لینا ۔

4 لیکن میں ۔ کیا میری فریاد اِنسان سے ہے ؟پھر میں بے صبری کیوں نہ کُروں ؟

5 مجھ پر غور کرو اور متُعجب ہو اور اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھو ۔

6 جب میں یاد کرتا ہوں تو گھبراجاتا ہُوں اور میرا جسم تھرااُٹھتا ہے ۔

7 شریر کیوں جیتے رہتے ۔ عمر رسیدہ ہوتے بلکہ قوت میں زبردست ہوتے ہیں ؟

8 اُنکی اَولاد اُنکے دیکھتے دیکھتے اور اُنکی نسل اُنکی آنکھوں کے سامنے قائم ہوجاتی ہے ۔

9 اُنکے گھر ڈر سے محفوظ ہیں اور خدا کی چھڑی اُن پر نہیں ہے۔

10 اُنکا سانڈباردار کردیتا ہے اور چوکتا نہیں ۔اُنکی گائے بیاتی ہے اور اپنا بچہ نہیں گراتی ۔

11 وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ریوڑ کی طرح باہر بھیجتے ہیں اور اُنکی اَولاد ناچتی ہے۔

12 وہ خنجری اور ستارکے تال پر گاتے اور بانسلی کی آواز سے خوش ہوتے ہیں ۔

13 وہ خوشحالی میں اپنے دِن کاٹتے اور دم کے دم میں پاتال میں اُتر جاتے ہیں ۔

14 حالانکہ اُنہوں نے خدا سے کہا تھا کہ ہمارے پاس سے چلا جا ۔کیونکہ ہم تیری راہوں کی معرفت کے خواہاں نہیں ۔

15  قادِر مطلق ہے کیا کہ ہم اُسکی عبادت کریں؟ اور اگر ہم اُس سے دُعا کریں تو ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟

16 دیکھو! اُنکی اقبالمندی اُنکے ہاتھ میں نہیں ہے۔شریروں کی مشورت مجھ سے دُور ہے۔

17 کتنی بار شریروں کا چراغ بجھ جاتا ہے اور اُنکی آفت اُن پر آپڑتی ہے!اور خدا اپنے غضب میں اُنہیں غم پر غم دیتا ہے

18 اور وہ اَیسے ہیں جیسے ہو اکے آگے ڈنٹھل اور جیسے بھوسا جسے آندھی اُڑ لے جاتی ہے ۔

19  خدا اُسکی بدی اُسکے بچوں کے لئے رکھ چھوڑتا ہے۔وہ اُسکا بدلہ اُسی کو دے تا کہ وہ جان لے۔

20 اُسکی ہلاکت کو اُسی کی آنکھیں دیکھیں اور وہ قادِرمطلق کے غضب میں سے پئے ۔

21 کیونکہ اپنے بعد اُسکو اپنے گھرانے سے کیا خوشی ہے جب اُسکے مہینوں کا سلسلہ ہی کاٹ ڈالا گیا ؟

22 کیا کوئی خدا کو علم سکھائیگا ؟جس حال کہ وہ سرفرازوں کی عدالت کرتا ہے ۔

23 کوئی تو اپنی پُوری طاقت میں چین اور سُکھ سے رہتا ہُوا مرجاتا ہے۔

24 اُسکی دوہنیاں دُودھ سے بھری ہیں اور اُسکی ہڈّیوں کا گودا تر ہے۔

25 اور کوئی اپنے جی میں کڑھ کڑھکر مرتا ہے اور کبھی سُکھ نہیں پاتا ۔

26 وہ دونوں مٹّی میں یکساں پڑجاتے ہیں اور کیڑے اُنہیں ڈھانک لیتے ہیں ۔

27 دیکھو! میں تمہارے خیالوں کو جانتا ہُوں اور اُن منصوبوں کو بھی جو تم بے اِنصافی سے میرے خلاف باندھتے ہو

28 کیونکہ تم کہتے ہو کہ اِمیر کا گھر کہاں رہا ؟ اور وہ خیمہ کہاں ہے جس میں شریر بستے تھے ؟

29 کیا تم نے راستہ چلنے والوں سے کبھی نہیں پُوچھا ؟اور اُنکے آثار نہیں پہچانتے؟

30 کہ شریر آفت کے دِن کے لئے رکھا جاتا ہے اور غضب کے دِن تک پہنچایا جاتا ہے؟

31 کون اُسکی راہ کو اُسکے منہ پر بیان کریگا؟ اور اُسکے کئے کا بدلہ کون اُسے دیگا ؟

32 تو بھی وہ گور میں پہنچایا جائیگا اور اُسکی قبر پر پہرا دیا جائیگا۔

33 وادی کے ڈھیلے اُسے مرغُوب ہیں اور سب لوگ اُسکے پیچھے چلے جائینگے ۔جیسے اُس سے پہلے بے شمار لوگ گئے ۔

34  سو تم کیوں مجھے عبث تسلی دیتے ہو جس حال کہ تمہاری باتوں میں جھوٹ ہی جھوٹ ہے؟

  ایّوب 22

1 تب اِلیفزؔ تیمائی نے جواب دیا:۔

2 کیا کوئی اِنسان خدا کے کام آسکتا ہے ؟یقیناعقلمند اپنے ہی کام کا ہے ۔

3 کیا تیرے صادق ہو نے سے قادِرمطلق کو کوئی خوشی ہے ؟یا اِس بات سے کہ تو اپنی راہوں کو کامل کرتا ہے اُسے کچھ فائدہ ہے؟

4 کیا اِسلئے کہ تجھے اُسکا خوف ہے وہ تجھے جھڑکتا اور تجھے عدالت میں لاتا ہے ؟

5  کیا تیری شرارت بڑی نہیں ؟کیا تیری بدکاریوں کی کوئی حّد ہے؟

6 کیونکہ تونے اپنے بھائی کی چیزیں بے سبب رہن رکھیں اور ننگوں کا لباس اُتار لیا ۔

7  تو نے تھکے ماندوں کو پانی نہ پلایا اور بھوکوں سے روٹی کو روک رکھا۔

8 لیکن زبردست آدمی زمین کا مالک بنا اور عزت دار آدمی اُس میں بسا ۔

9 تو نے بیواؤں کو خالی چلتا کیا اور یتیموں کے بازُو توڑے گئے ۔

10 اِس لئے پھندے تیری چاروں طرف ہیں اور ناگہانی خوف تجھے ستاتا ہے ۔

11 یا اَیسی تاریکی کہ تو دیکھ نہیں سکتا اور پانی کی باڑھ تجھے چھپائے لیتی ہے۔

12 کیا آسمان کی بلندی میں خدا نہیں ؟ اور تاروں کی بلندی کو دیکھ ۔وہ کیسے اُونچے ہیں !

13  پھر تو کہتا ہے کہ خدا کیا جانتا ہے؟ کیا وہ گہری تاریکی میں سے عدالت کریگا؟

14 دلدار بادل اُسکے لئے پردہ ہیں کہ وہ دیکھ نہیں سکتا ۔وہ آسمان کے دائرہ میں سیر کرتا پھرتا ہے۔

15 کیا تو اُسی پُرانی راہ پر چلتا رہیگا جس پر شریر لوگ چلے ہیں ؟

16 جو اپنے وقت سے پہلے اُٹھالئے گئے اور سیلاب اُنکی بُنیاد کو بہالے گیا ۔

17 جو خدا سے کہتے تھے ہمارے پاس سے چلا جا اور یہ کہ قادِرمطلق ہمارے لئے کرکیا سکتا ہے؟

18 تو بھی اُس نے اُنکے گھروں کو اچھی اچھی چیزوں سے بھردیا لیکن شریروں کی مشورت مجھ سے دُور ہے۔

19 صادق یہ دیکھکر خوش ہوتے ہیں اور بیگناہ اُنکی ہنسی اُڑاتے ہیں

20 اور کہتے ہیں کہ یقیناًوہ جو ہمارے خلاف اُٹھے تھے کٹ گئے اور جواُن میں سے باقی رہ گئے تھے اُنکو آگ نے بھسم کردیا ہے۔

21 اُس سے ملا رہ تو سلامت رہیگا اور اِس سے تیرا بھلا ہوگا ۔

22 میں تیری منت کرتا ہوں کہ شریعت کو اُسی کی زبانی قبول کر اور اُسکی باتوں کو اپنے دل میں رکھ لے ۔

23 اگر تو قادِر مطلق کی طرف پھرے تو بحال کیا جائیگا ۔بشر طیکہ تو ناراستی کو اپنے خیموں سے دُور کردے ۔

24 تو اپنے خزانہ کو مٹّی میں اور راوفیرؔ کے سونے کو ندیو ں کے پتھروں میں ڈال دے

25 تب قادِرمطلق تیرا خزانہ اور تیرے لئے بیش قیمت چاندی ہوگا ۔

26 کیونکہ تب ہی تو قادِرمطلق میں مسُرور رہیگا اور خدا کی طرف اپنا منہ اُٹھائیگا۔

27 تو اُس سے دُعا کریگا اور وہ تیری سُنیگا اور تو اپنی منیتں پُوری کریگا ۔

28 جس بات کو تو کہیگا وہ تیرے لئے ہو جائیگی اور نور تیری راہوں کو روشن کریگا ۔

29 جب وہ پست کرینگے تو کہیگا بلندی ہوگی ۔اور وہ حلیم آدمی کو بچائیگا ۔

30 وہ اُسکو بھی چھڑالیگا جو بے گناہ نہیں ہے۔ہاں وہ تیرے ہاتھوں کی پاکیزگی کے سبب سے چھڑایا جائیگا ۔

  ایّوب 23

1 تب ایوب نے جواب دیا:۔

2 میری شکایت آج بھی تلخ ہے ۔میری مار میرے کراہنے سے بھی بھاری ہے۔

3 کاش کہ مجھے معلوم ہوتا کہ وہ مجھے کہاں مل سکتا ہے تاکہ میں عین اُسکی مسند تک پہنچ جاتا !

4 میں اپنا مُعاملہ اُسکے حُضُور پیش کرتا اور اپنا منہ دلیلوں سے بھر لیتا ۔

5 میں اُن لفظوں کو جان لیتا جن میں وہ مجھے جواب دیتا اور جوکچھ وہ مجھ سے کہتا میں سمجھ لیتا

6 کیا وہ اپنی قُدرت کی عظمت میں مجھ سے لڑتا ؟نہیں ۔بلکہ وہ میری طرف توجہ کرتا ۔

7 راستبازو ہاں اُسکے ساتھ بحث کرسکتے ۔یوں میں اپنے مُنصف کے ہاتھ سے ہمیشہ کے لئے رہائی پاتا ۔

8 دیکھو! میں آگے جاتا ہُوں پر وہ وہاں نہیں اور پیچھے ہٹتا ہُوں پر میں اُسے دیکھ نہیں سکتا ۔

9 با ئیں ہاتھ پھر تا ہُوں جب وہ کام کرتا ہے وہ مجھے دِکھائی نہیں دیتا ۔وہ دہنے ہاتھ کی طرف چھپ جاتا ہے اَیسا کہ میں اُسے دیکھ نہیں سکتا ۔

10  لیکن وہ اُس راستہ کو جس پر چلتا ہُوں جانتا ہے ۔جب وہ مجھے تالیگا تو میں سونے کی مانند نکل آؤنگا ۔

11 میرا پاؤں اُسکے قدموں سے لگا رہاہے ۔میں اُسکے راستہ پر چلتا رہا ہوں اور برگشتہ نہیں ہوا۔

12 میں اُس کے لبوں کے حکم سے ہٹا نہیں ۔میں نے اُسکے منہ کی باتوں کو اپنی ضروری خوراک سے بھی زیادہ ذخیرہ کیا ۔

13 لیکن وہ ایک خیال میں رہتا ہے اور کون اُسکو پھرا سکتا ہے؟اور جو کچھ اُسکا جی چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔

14 کیونکہ جو کچھ میرے لئے مُقرر ہے وہ پُورا کرتا ہے اور بہت سی اَیسی باتیں اُسکے ہاتھ میں ہیں ۔

15 اِسی لئے میں اُسکے حُضُور میں گھبراجاتا ہُوں ۔میں جب سوچتا ہُوں تو اُس سے ڈر جاتا ہُوں

16 کیونکہ خدا نے میرے دِل کو بودا کرڈالا اور قادِرمطلق نے مجھکو گھبرادیا ہے ۔

17 اِسلئے کہ میں اِس ظلمت سے پہلے کاٹ ڈالا نہ گیا اور اُس نے بڑی تاریکی کو سامنے سے نہ چھپایا۔

  ایّوب 24

1 قادِرمطلق نے وقت کیوں نہیں ٹھہرائے اور جو اُسے جانتے ہیں وہ اُسکے دِنوں کو کیوں نہیں دیکھتے ؟

2 اَیسے لوگ بھی ہیں جو زمین کی حدّوں کو سرکا دیتے ہیں ۔وہ ریوڑوں کو زبردستی لے جاتے اور اُنہیں چراتے ہیں ۔

3 وہ یتیم کے گدھے کو ہانک لے جاتے ہیں ۔وہ بیوہ کے بیل کو گرو لیتے ہیں ۔

4 وہ محتاج کو راستہ سے ہٹا دیتے ہیں ۔زمین کے غریب اِکٹھے چھپتے ہیں ۔

5 دیکھو! وہ بیابان کے گورخروں کی طرح پنے کام کو جاتے اور مشقت اُٹھا کر خوراک ڈھونڈتے ہیں ۔بیابان اُنکے بچوں کے لئے خوراک بہم پہنچاتا ہے۔

6 وہ کھیت میں اپنا چارا کاٹتے ہیں اور شریروں کے انگور کی خوشہ چینی کرتے ہیں ۔

7 وہ ساری رات بے کپڑے ننگے پڑے رہتے ہیں اور جاڑوں میں اُنکے پاس کوئی اوڑھنا نہیں ہوتا ۔

8 وہ پہاڑوں کی بارش سے بھیگے رہتے ہیں اور کسی آڑ کے نہ ہونے سے چٹان سے لپٹ جاتے ہیں۔

9  اَیسے لوگ بھی ہیں جو یتیم کو چھاتی پر سے ہٹا لیتے ہیں اور غریبوں سے گرو لیتے ہیں ۔

10 سو وہ بے کپڑے ننگے پھرتے اور بھوک کے مارے پُولیاں ڈھوتے ہیں ۔

11 وہ اِن لوگوں کے اِحاطوں میں تیل نکالتے ہیں ۔وہ اُنکے کُنڈوں میں انگور رَوندتے اور پیاسے رہتے ہیں ۔

12 آباد شہر میں سے نکلکر لوگ کراہتے ہیں اور زخمیوں کی جان فریاد کرتی ہے۔تو بھی خدا اِس حمایت کا خیال نہیں کرتا۔

13 یہ اُن میں سے ہیں جو نور سے بغاوت کرتے ہیں ۔وہ اُسکی راہوں کو نہیں جانتے ۔نہ اُسکے راستوں پر قائم رہتے ہیں ۔

14 خونی روشنی ہوتے ہی اُٹھتا ہے ۔وہ غریبوں اور محتاجوں کو مار ڈالتا ہے اور رات کو وہ چور کی مانند ہے۔

15 زانی کی آنکھ بھی شام کی مُنتظر رہتی ہے۔وہ کہتا ہے کسی کی نظر مجھ پر نہ پڑ یگی اور وہ اپنا منہ ڈھاک لیتا ہے ۔

16  اندھیرے میں وہ گھروں میں سیندمارتے ہیں ۔ وہ دن کے وقت چھپے رہتے ہیں ۔وہ نور کو نہیں جانتے

17 کیونکہ صبح اُن سبھوں کے لئے اَیسی ہے جیسے موت کا سایہ اِسلئے کہ اُنہیں موت کے سایہ کی دہشت معلوم ہے۔

18 وہ پانی کی سطح پر تیز رَو ہے ۔وہ تاکستانوں کی راہ پر نہیں چلتے ۔

19 خشکی اور گرمی برفانی پانی کے نالوں کو سُکھا دیتی ہیں ۔اَیسا ہی قبر گنہگاروں کے ساتھ کرتی ہے۔

20 رَحم اُسے بھول جائیگا ۔کیڑا اُسے مزہ سے کھائیگا ۔اُسکی یاد پھر نہ ہوگی ۔ناراستی درخت کی طرح توڑ دی جائیگی ۔

21 وہ بانجھ کو جو جنتی نہیں نگل جاتا ہے اور بیوہ کے ساتھ بھلائی نہیں کرتا ۔

22 خدا اپنی قُّوت سے زبردستوں کو بھی کھینچ لیتا ہے ۔وہ اُٹھتا ہے اور کسی کو زندگی کا یقین نہیں رہتا ۔

23 خدا اُنہیں امن بخشتا ہے اور وہ اُسی میں قائم رہتے ہیں اور اُسکی آنکھیں اُنکی راہوں پر لگی رہتی ہیں ۔

24 وہ سرفراز تو ہوتے ہیں پر تھوڑی ہی دیر میں جاتے رہتے ہیں بلکہ وہ پست کئے جاتے ہیں اور سب دُوسروں کی طرح راستہ سے اُٹھالئے جاتے اور اناج کی بالوں کی طرح کاٹ ڈالے جاتے ہیں۔

25  اور اگر یہ یوں ہی نہیں ہے تو کون مجھے جھوٹا ثابت کریگا ۔اور میری تقر یر کو ناچیز ٹھہرا ئیگا ؟

  ایّوب 25

1 تب بلددؔ سُوخی نے جواب دیا:۔

2 اِقتدار اور دبدبہ اُسکے ساتھ ہے۔وہ اپنے بلند مقاموں میں امن رکھتا ہے ۔

3 کیا اُسکی فوجوں کی کوئی تعداد ہے؟اور کون ہے جس پر اُسکی روشنی نہیں پڑتی ؟

4 پھر اِنسان کیونکر خدا کے حُضُور راست ٹھہر سکتا ہے؟ یا وہ جو عورت سے پیدا ہُوا ہے کیونکر پاک ہوسکتا ہے؟

5 دیکھ ! چاند میں بھی روشنی نہیں اور تارے اُسکی نظر میں پاک نہیں ۔

6 پھر بھلا اِنسان کا جو محض کیڑا ہے اور آدم زاد کا جو صرف کِرم ہے ذکر !

  ایّوب 26

1 تب ایوب ؔ نے جواب دیا:۔

2 جو بے طاقت ہے اُسکی تو نے کیسی مدد کی! جس بازو میں قوت نہ تھی اُسکو تو نے کیسا سنبھالا !

3  نادان کو تو نے کیسی صلاح دی اور حقیقی معرفت خوب ہی بتائی !

4 تو نے جو باتیں کہیں سو کس سے ؟ اور کس کی رُوح تجھ میں سے ہوکر نکلی ؟

5 مُردوں کی رُوحیں پانی اور اُسکے رہنے والوں کے نیچے کانپتی ہیں ۔

6 پاتال اُسکے حُضُور کھلا ہے اور جہنم بے پردہ ہے۔

7  وہ شمال کو فضا میں پھیلا تا ہے اور زمین کو خلا میں لٹکاتا ہے ۔

8 وہ اپنے دلدار بادلوں میں پانی کا باندھ دیتا ہے اور بادل اُسکے بوجھ سے پھٹتا نہیں ۔

9 وہ اپنے تخت کو ڈھانک لیتا ہے اور اُسکے اُوپر اپنے بادل کو تان دیتا ہے ۔

10 اُس نے روشنی اور اندھیرے کے ملنے کی جگہ تک پانی کی سطح پر حّد باندھ دی ہے ۔

11 آسمان کے سُتُون کانپتے اور اُسکی جھڑکی سے حیران ہوتے ہیں ۔

12 وہ اپنی قُدرت سے سمندر کو موجزن کرتا اور اپنے فہم سے رہبؔ کو چھیدا ہے ۔

13 اُسکے دم سے آسمان آراستہ ہوتا ہے ۔اُسکے ہاتھ نے تیزرَو سانپ کو چھیدا ہے۔

14 دیکھو! یہ تو اُسکی راہوں کے فقط کنارے ہیں اور اُسکی کیسی دھیمی آواز ہم سُنتے ہیں !پر کون اُسکی قُدرت کی گرج کو سمجھ سکتا ہے؟

  ایّوب 27

1 اور ایوب ؔ نے پھر اپنی مثل شُروع کی اور کہنے لگا:۔

2 زندہ خد کی قسم جس نے میرا حق چھین لیا اور قادِرمطلق کی سِوگند جس نے میری جان کو دُکھ دیا ہے۔

3  ( کیونکہ میری جان مجھ میں اب تک سالم ہے اور خدا کا دم میرے نتھنوں میں ہے)۔

4 یقینامیرے لب ناراستی کی باتیں نہ کہینگے نہ میری زبان سے فریب کی بات نکلیگی ۔

5 خدا نہ کرے کہ میں تمہیں راست ٹھہراؤں ۔میں مرتے دم تک اپنی راستی کو ترک نہ کرونگا ۔

6  میں اپنی صداقت پر قائم ہُوں اور اُسے نہ چھوڑونگا ۔جب تک میری زندگی ہے میرا دِل مجھے ملامت نہ کریگا ۔

7 میرا دُشمن شریروں کی مانند ہو اور میرے خلاف اُٹھنے والا ناراستوں کی مانند !

8 کیونکہ گوبیدین دَولت حاصل کرلے تو بھی اُسکی اُمید کیا ہے جب خدا اُسکی جان لیلے ؟

9 کیا خدا اُسکی فریاد سُنیگا جب مصیبت اُس پر آئے ؟

10 کیا وہ قادِرمطلق میں مسروُر رہیگا اور ہر وقت خدا سے دُعا کریگا ؟

11 میں تمہیں خدا کے برتاؤ کی تعلیم دُونگا اور قادِرمطلق کی بات نہ چھپاؤنگا ۔

12 دیکھ! تم سبھوں نے خُود یہ دیکھا ہے پھر تم باِلکل خود بین کیسے ہوگئے ؟

13 خدا کی طرف سے شریر آدمی کا حصہ اور ظالموں کی میراث جو وہ قادِرمطلق کی طرف سے پاتے ہیں یہی ہے۔

14 اگر بچے بہت ہوجائیں تو وہ تلوار کے لئے ہیں اور اُسکی اَولاد روٹی سے سیر نہ ہوگی ۔

15 اُسکے باقی لوگ مرکر دفن ہونگے اور اُسکی بیوائیں نَوحہ نہ کرینگی ۔

16  چاہے وہ خاک کی طرح چاندی جمع کرلے اور کثرت سے لباس تیار کر رکھے ۔

17 وہ تیار کرلے پر جو راست ہیں وہ اُنکو پہنینگے اور جو بے گناہ ہیں وہ اُس چاندی کو بانٹ لینگے ۔

18 اُس نے مکڑی کی طرح اپنا گھر بنایا اور اُس جھونپڑی کی طرح جسے رکھوالا بناتا ہے۔

19 وہ لیٹتا ہے دَولتمند پر وہ دفن نہ کیا جائیگا ۔وہ اپنی آنکھ کھولتا ہے اور وہ ہے ہی نہیں۔

20 دہشت اُسے پانی کی طرح آلیتی ہے ۔رات کو طوفان اُسے اُڑا لے جاتا ہے ۔

21 مشرقی ہوا اُسے اُڑا لے جاتی ہے اور وہ جاتا رہتا ہے۔وہ اُسے اُسکی جگہ سے اُکھاڑ پھینکتی ہے ۔

22 کیونکہ خُدا اُس پر برسائیگا اور چھوڑنے کا نہیں ۔وہ اُسکے ہاتھ سے نکل بھاگنا چاہیگا ۔

23 لوگ اُس پر تالیا ں بجائینگے اور سُسکار کر اُسے اُسکی جگہ سے نکال دینگے ۔

  ایّوب 28

1 یقیناچاندی کی کان ہوتی ہے اور سونے کے لئے جگہ ہوتی ہے جہاں تایا جاتا ہے ۔

2 لوہا زمین سے نکالا جاتا ہے اور پیتل پتھر میں سے گلایا جاتا ہے ۔

3 اِنسان تاریکی کی تہ تک پہنچتا ہے اور ظُلمات اور موت کے سایہ کی اِنتہا تک پتھروں کی تلاش کرتا ہے ۔

4 آبادی سے دُور وہ سُرنگ لگاتا ہے۔آنے جانے والوں کے پاؤں سے بے خبر اور لوگوں سے دُور وہ لٹکتے اور جھولتے ہیں ۔

5 اور زمین ۔اُس سے خوراک پیدا ہوتی ہے اور اُسکے اندر گویا آگ سے انقلاب ہوتا رہتا ہے۔

6  اُسکے پتھروں میں نیلم ہے ۔اور اُس میں سونے کے ذرّے ہیں ۔

7  اُس راہ کو کوئی شکاری پرندہ نہیں جانتا نہ باز کی آنکھ نے اُسے دیکھا ہے

8 نہ متکبر جانور اُس پر چلے ہیں نہ نخوار ببر اُدھر سے گذرا ہے۔

9 وہ چقماق کی چٹان پر ہاتھ لگاتا ہے ۔وہ پہاڑوں کو جڑ سے اُلٹ دیتا ہے ۔

10 وہ چٹانوں میں سے نالیاں کاٹتا ہے۔ اُسکی آنکھ ہر بیش قیمت چیز کو دیکھ لیتی ہے

11 وہ ندیوں کو مُسدود کرتا ہے کہ وہ ٹپکتی بھی نہیں اور چھپی چیز کو وہ روشنی میں نکال لاتا ہے۔

12 لیکن حکمت کہاں ملیگی ؟ اورخرد کی جگہ کہاں ہے؟

13 نہ اِنسان اُسکی قدر جانتا ہے نہ وہ زندوں کی سر زمین میں ملتی ہے ۔

14 گہراؤ کہتا ہے وہ مجھ میں نہیں ہے ۔سمندر کہتا ہے وہ میرے پاس نہیں ۔

15 نہ وہ سونے کے بدلے مل سکتی ہے نہ چاندی اُسکی قیمت کے لئے تُلیگی ۔

16 نہ اوفیرؔ کا سونا اُسکا مول ہوسکتا ہے اور نہ قیمتی سُلیمانی پتھریا نیلم ۔

17 نہ سونا اور کانچ اُسکی برابری کرسکتے ہیں نہ چوکھے سونے کے زیور اُسکا بدل ٹھہر ینگے ۔

18 مونگے اور بِلّور کا نام بھی نہیں لیا جائیگا بلکہ حکمت کی قیمت مرجان سے بڑھکر ہے۔

19 نہ کوُش کا پکھراج اُسکے برابر ٹھہریگا نہ چوکھا سونا اُسکا مول ہوگا ۔

20 پھر حکمت کہاں سے آتی ہے ؟اور خرد کی جگہ کہاں ہے ؟

21 جس حال کہ وہ سب زندوں کی آنکھوں سے چھپی ہے اور ہوا کے پرندوں سے پوشیدہ رکھی گئی ہے۔

22  ہلاکت اور موت کہتی ہیں ہم نے اپنے کانوں سے اُسکی افواہ تو سُنی ہے۔

23 خدا اُسکی راہ کو جانتا ہے اور اُسکی جگہ سے واقف ہے۔

24 کیونکہ وہ زمین کی اِنتہا تک نظر کرتا ہے اور سارے آسمان کے نیچے دیکھتا ہے

25  تاکہ وہ ہوا کا وزن ٹھہرائے بلکہ وہ پانی کو پیمانہ سے ناپتا ہے ۔

26 جب اُس نے بارش کے لئے قانون اور رعد کی برق کے لئے راستہ ٹھہرایا

27 تب ہی اُس نے اُسے دیکھا اور اُسکا بیان کیا ۔اُس نے اُسے قائم کیا بلکہ اُسے ڈھونڈ نکالا

28  ا ور اُس نے اِنسان سے کہا دیکھ خداوند کا خوف ہی حکمت ہے اور بدی سے دُور رہنا خرد ہے۔

  ایّوب 29

1 اور ایوب ؔ پھر اپنی مثل لاکر کہنے لگا:۔

2 کا شکہ میں اَیسا ہوتا جیسا گُذشتہ مہینوں میں یعنی جیسا اُن دِنوں میں جب خدا میری حفاظت کرتا تھا ۔

3 جب اُسکا چراغ میرے سر پر روشن رہتا تھا اور میں اندھیرے میں اُسکے نور کے ذریعہ سے چلتا تھا ۔

4 جیسا میں اپنی برومندی کے ایاّم میں تھا ۔جب خدا کی خوشنودی میرے ڈیرے پر تھی ۔

5 جب قادِرمطلق ہنوز میرے ساتھ تھا اور میرے بچے میرے ساتھ تھے ۔

6 جب میرے قدم مکھن سے دُھلتے تھے اور چٹان میرے لئے تیل کی ندیاں بہاتی تھی!

7 جب میں شہر کے پھاٹک پر جاتا اور اپنے لئے چوک میں بیٹھک تیار کرتا تھا

8 تو جوان مجھے دیکھتے اور چھپ جاتے اور عمر رسید ہ لوگ اُٹھ کھڑے ہوتے تھے ۔

9  امرا بولنا بند کر دیتے اور اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیتے تھے ۔

10 رئیسوں کی آواز تھم جاتی اور اُنکی زبان تالُو سے چیک جاتی تھی۔

11  کیونکہ کان جب میری سُن لیتا تو مجھے مُبارک کہتا تھا اور آنکھ جب مجھے دیکھ لیتی تو میری گواہی دیتی تھی

12 کیونکہ میں غریب کو جب وہ فریاد کرتا چھڑاتا تھا اور یتیم کو بھی جس کا کوئی مددگار نہ تھا ۔

13 ہلاک ہونے والا مجھے دُعا دیتا تھا اور میں بیوہ کے دِل کو اَیسا خوش کرتا تھا کہ وہ گانے لگتی تھی ۔

14  میں نے صداقت کو پہنا اور اُس سے مُلبس ہُوا ۔میرا اِنصاف گویا جُبہّ اور عمامہ تھا۔

15 میں اندھوں کے لئے آنکھیں تھا اور لنگڑوں کے لئے پاؤں ۔

16 میں مُحتاج کا باپ تھا اور میں اجنبی کے مُعاملہ کی بھی تحقیق کرتا تھا ۔

17  میں ناراست کے جبڑوں کو توڑ ڈالتا اور اُسکے دانتوں سے شکار چھڑالیتا تھا ۔

18 تب میں کہتا تھا کہ میں اپنے آشیانہ میں مروُنگا اور میں اپنے دِنوں کو ریت کی طرح بے شمار کُرونگا۔

19 میری جڑیں پانی تک پھیل گئی ہیں اور رات بھرا وس میری شاخوں پر رہتی ہے۔

20 میری شوکت مجھ میں تازہ ہے اور میری کمان میرے ہاتھ میں نئی کی جاتی ہے۔

21 لوگ میری طرف کان لگاتے اور منتظر رہتے اور میری مشورت کے لئے خاموش ہوجاتے تھے۔

22 میری باتوں کے بعد وہ پھر نہ بولتے تھے اور میری تقریر اُن پر ٹپکتی تھی ۔

23 وہ میرا اَیسا اِنتظار کرتے تھے جیسے پچھلے مینہ کے لئے ۔

24 جب وہ مایوس ہوتے تھے تو میں اُن پر مسکراتا تھا اور میرے چہرہ کی بشاشت کو اُنہوں نے کبھی نہ بگاڑا ۔

25 میں اُنکی راہ کو چُنتا اور سردار کی طرح بیٹھتا اور اَیسے رہتا تھا جیسے فوج میں بادشاہ اور جیسے وہ جو غمزدوں کو تسلی دیتا ہے۔

  ایّوب 30

1 پر اب تو وہ جو مجھ سے کم عمر ہیں میرا تمسخر کرتے ہیں جنکے باپ دادا کو اپنے گلہ کے کتوں کے ساتھ رکھنا بھی مجھے ناگوار تھا ۔

2 بلکہ اُنکے ہاتھوں کی قُوّت مجھے کس بات کا فائدہ پہنچایگی ؟ وہ اَیسے آدمی ہیں جنکی جوانی کا زور زائل ہوگیا ۔

3 وہ اِفلاس اور قحط کے مارے دُبلے ہوگئے ہیں ۔وہ ویرانی اور سُنسانی کی تاریکی میں خاک چاٹتے ہیں ۔

4 وہ جھاڑیوں کے پاس لونئےِ کا ساگ توڑتے ہیں اور جھاؤ کی جڑیں اُنکی خوراک ہے۔

5 وہ لوگوں کے درمیان رگیدے گئے ہیں ۔لوگ اُنکے پیچھے اَیسے چلاتے ہیں جیسے چور کے پیچھے ۔

6  اُنکو وادِیو ں کے شگافوں میں اور غاروں اور زمین کے بھٹوں میں رہنا پڑتا ہے ۔

7 وہ جھاڑیوں کے درمیان رینگتے اور جھنکاڑوں کے نیچے اِکٹھے پڑے رہتے ہیں ۔

8 وہ احمقوں بلکہ کمینوں کی اَولاد ہیں ۔وہ ملک سے مار مار کر نکالے گئے تھے ۔

9 اور اب میں اُنکا گیت بنا ہُوں ۔بلکہ اُنکے لئے ضرب المثل ہُوں ۔

10 وہ مجھ سے گھن کھاتے ۔وہ مجھ سے دُور کھڑے ہوتے اور میرے منہ پر تھوکنے سے باز نہیں رہتے ہیں ۔

11 کیونکہ خدا نے میرا چلّہ ڈِھیلا کردیا اور مجھ پر آفت بھیجی ۔اِسلئے وہ میرے سامنے بے لگام ہوگئے ہیں ۔

12  میرے دہنے ہاتھ پر لوگوں کا ہجُوم اُٹھتا ہے ۔وہ میرے پاؤں کو ایک طرف سرکا دیتے ہیں اور میرے خلاف اپنی مُہلک راہیں نکالتے ہیں ۔

13  اَیسے لوگ بھی جن کا کوئی مددگار نہیں میرے راستہ کو بگاڑتے اور میری مصیبت کو بڑھاتے ہیں ۔

14 وہ گویا بڑے رخنہ میں سے ہوکر آتے ہیں اور تباہی میں مجھ پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

15 دہشت مجھ پر طاری ہوگئی ۔وہ ہوا کی طرح میری آبروُ کو اُڑاتی ہے۔میری عافیت بادل کی طرح جاتی رہی ۔

16 اب تو میری جان میرے اندر گُذاز ہوگئی ۔دُکھ کے دِنوں نے مجھے جکڑ لیا ہے ۔

17 رات کے وقت میری ہڈّیاں میرے اندر چھد جاتی ہیں اور وہ درد جو مجھے کھائے جاتے ہیں دم نہیں لیتے ۔

18 میرے مرض کی شدّت سے میری پوشاک بدنما ہوگئی ۔وہ میرے پیراہن کے گربیان کی طرح مجھ سے لپٹی ہُوئی ہے۔

19 اُس نے مجھے کیچڑمیں دھکیل دیا ہے ۔میں خاک اور راکھ کی مانند ہو گیا ہُوں ۔

20 میں تجھ سے فریاد کرتا ہوں اور تو مجھے جواب نہیں دیتا ۔ میں کھڑا ہوتا ہوں اور تو مجھے گھورنے لگتا ہے ۔

21 تو بدل کر مجھ پر بے رحم ہوگیا ہے۔اپنے بازُو کے زور سے تو مجھے ستاتا ہے ۔

22 تو مجھے اُوپر اُٹھا کر ہوا پر سوار کرتا ہے اور مجھے آندھی میں گھلادیتا ہے۔

23 کیونکہ میں جانتا ہُوں کہ تو مجھے موت تک پہنچائیگا اور اُس گھر تک جو سب زندوں کے لئے مُقرّر ہے ۔

24 تو بھی کیا تباہی کے وقت کوئی اپنا ہاتھ نہ بڑھائیگا اور مصیبت میں فریاد نہ کریگا ؟

25 کیا میں دردمند کے لئے روتا نہ تھا ؟ کیا میری جان محتاج کے لئے آزردہ نہ ہوتی تھی ؟

26 جب میں بھلائی کا منتظر تھا تو بُرائی پیش آئی ۔جب میں روشنی کے لئے ٹھہرا تھا تو تاریکی آئی۔

27 میری انتڑ یا ں اُبل رہی ہیں اور آرام نہیں پاتیں ۔ مجھ پر مصیبت کے دن آپڑے ہیں ۔

28 میں بغیر دُھوپ کے کالا ہو گیا ہُوں۔میں مجمع میں کھڑا ہو کر مدد کے لئے دُہائی دیتا ہُوں ۔

29 میں گیدڑوں کا بھائی اور شُتر مُرغوں کا ساتھی ہُوں ۔

30 میری کھا ل کالی ہو کر مجھ پر سے گرتی جاتی ہے اور میری ہڈّیاں حرارت سے جل گئیں ۔

31 اِسی لئے میری ستارسے ماتم اور میری بانسلی سے رونے کی آواز نکلتی ہے۔

  ایّوب 31

1 میں نے اپنی آنکھوں سے عہد کیا ہے ۔پھر میں کسی کنورای پر کیونکر نظر کُروں ؟

2 کیونکہ اُوپر سے خدا کی طرف سے کیا بخرہ ہے اور عالمِ بالا سے قادِرمطلق کی طرف سے کیا میراث ہے؟

3 کیا وہ ناراستوں کے لئے آفت اور بدکرداروں کے لئے تباہی نہیں ہے ؟

4  کیا وہ میری راہوں کو نہیں دیکھتا اور میرے سب قدموں کو نہیں گنتا ؟

5 اگر میں بطالت سے چلا ہُوں اور میرے پاؤں نے دغا کے لئے جلدی کی ہے

6 (تو میں ٹھیک ترازُو میں تولا جاؤں تاکہ خدا میری راستی کو جان لے ) ۔

7 اگر میرا قدم راستہ سے برگشتہ ہُوا ہے اور میرے دِل نے میری آنکھوں کی پیروی کی ہے اور اگر میرے ہاتھوں پر داغ لگا ہے

8 تو میں بوؤں اور دوسرا کھائے اور میرے کھیت کی پیداوار اُکھاڑدی جائے۔

9  اگر میرا دِل کسی عورت پر فریفتہ ہُوا اور میں اپنے پڑوسی کے دروازہ پر گھات میں بیٹھا

10 تو میری بیوی دُوسرے کے لئے پیسے اور غیر مرد اُس پر جھکیں ۔

11 کیونکہ یہ نہایت بُرا جُرم ہوتا بلکہ اَیسی بدی ہوتی جسکی سزا قاضی دیتے ہیں ۔

12  کیونکہ وہ اَیسی آگ ہے جو جلا کر بھسم کردیتی ہے اور میرے سارے حاصل کو جڑ سے نیست کر ڈالتی ہے ۔

13 اگر میں نے اپنے خادم یا اپنی خادمہ کا حق مارا ہو جب اُنہوں نے مجھ سے جھگڑا کیا

14 تو جب خدا اُٹھیگا تب میں کیا کُرونگا؟اور جب وہ آئیگا تو میں اُسے کیا جواب دُونگا ؟

15 کیا وہی اُسکا بنانے والا نہیں جِس نے مجھے بطن میں بنایا؟ اور کیا ایک ہی نے ہماری صُورت رحیم میں نہیں بنائی ؟

16  اگر میں نے محتاج سے اُسکی مُرادروک رکھی یا اَیسا کیا کہ بیوہ کی آنکھیں رہ گئیں ۔

17 یا اپنا نوالہ اکیلے ہی کھایا ہو اور یتیم اُس میں سے کھانے نہ پایا ۔

18 (نہیں ۔ بلکہ میرے لڑکپن سے وہ میرے ساتھ اَیسے پلا جیسے باپ کے ساتھ اور میں اپنی ماں کے بطن ہی سے بیوہ کا رہنما رہا ہوں )۔

19 اگر میں نے دیکھا کہ کوئی بے کپڑے مرتا ہے یا کسی محتاج کے پاس اوڑھنے کو نہیں ۔

20 اگر اُسکی کمر نے مجھ کو دُعا نہ دی ہو اور اگر وہ میری بھیڑوں کی اُون سے گرم نہ ہُوا ہو ۔

21 اگر میں نے کسی یتیم پر ہاتھ اُٹھایا ہو ۔کیونکہ پھاٹک پر مجھے اپنی کُمک دِکھائی دی

22 تو میرا کندھا میرے شانہ سے اُترجائے اور میرے بازُو کی ہڈّی ٹوٹ جائے

23 کیونکہ مجھے خدا کی طرف سے آفت کا خوف تھا اور اُسکی بُزُرگیکی وجہ سے میں کچھ نہ کرسکا ۔

24 اگر میں نے سونے پر بھروسا کیا ہو اور چوکھے سونے سے کہا میرا اِعتماد تجھ پر ہے ۔

25 اگر میں اِسلئے کہ میری دَولت فراوان تھی اور میرے ہاتھ نے بہت کچھ حاصل کرلیا تھا نازان ہُوا ۔

26 اگر میں نے سُورج پر جب وہ چمکتا ہے نظر کی ہو یا چاند پر جب وہ آب وتاب میں چلتا ہے

27 اور میرا دِل خفیتہً فریفتہ ہوگیا ہو اور میرے منہ نے میرے ہاتھ کو چوم لیا ہو

28 تو یہ بھی اَیسی بدی ہے جسکی سزا قاضی دیتے ہیں کیونکہ یوں مَیں نے خدا کا جو عالمِ بالا پر ہے اِنکار کیا ہوتا ۔

29  اگر میں اپنے نفرت کرنے والے کی ہلاکت سے خوش ہُوا یا جب اُس پر آفت آئی تو شادمان ہُوا ۔

30 (ہاں میں نے تو اپنے منہ کو اِتنا گُناہ بھی نہ کرنے دیا کہ لعنت بھیجکر اُسکی موت کے لئے دُعا کرتا )۔

31  اگر میرے خیمہ کے لوگوں نے یہ نہ کہا ہو اَیسا کون ہے جو اُسکے ہاں گوشت سے سیر نہ ہُوا ؟

32 پردیسی کو گلی کُوچوں میں ٹکنا نہ پڑا بلکہ میں مُسافر کے لئے اپنے دروازے کھول دیتا تھا۔

33  اگر آدمؔ کی طرح اپنی بدی اپنے سینہ میں چھپا کر میں نے اپنی تقصیروں پر پردہ ڈالا ہو

34 اِس سبب سے کہ مجھے عوام الناس کا خوف تھا اور میں خاندانوں کی حقارت سے ڈر گیا۔یہانتک کہ میں خاموش ہوگیا اور دروازہ سے باہر نہ نکلا۔

35 کاش کہ کوئی میری سُننے والا ہوتا! ( یہ لو میرا دستخط ۔قادِرمطلق مجھے جواب دے ) ۔کاش کہ میرے مخالف کے دعویٰ کی تحریر ہوتی!

36 یقیناًمیں اُسے اپنے کندھے پر لئے پھرتا اور اُسے اپنے لئے عمامہ کی طرح باندھ لیتا ۔

37 میں اُسے اپنے قدموں کی تعداد بتاتا ۔اِمیر کی طرح میں اُسکے پاس جاتا ۔

38 اگر میری زمین میرے خلاف دُہائی دیتی ہو اور اُسکی ریگھاریاں ملکر روتی ہوں ۔

39  اگر میں نے بے دام اُسکے پھل کھائے ہوں یا اَیسا کیا کہ اُسکے مالکوں کی جان گئی

40 تو گیہوں کے بدلے اُونٹ کٹارے اور جو کے بدلے کڑوے دانے اُگیں ۔

  ایّوب 32

1 ایوب ؔ کی باتیں تمام ہُوئیں ۔سو اُن تینوں آدمیوں نے ایوب ؔ کو جواب دینا چھوڑ دیا اِسلئے کہ وہ اپنی نظر میں صادق تھا ۔

2 تب اِلیہوُبنؔ براکیلؔ بُوزی کا جورامؔ کے خاندان سے تھا قہر بھڑکا ۔اُسکا قہر ایوب پر بھڑکا اِسلئے کہ اُس نے خدا کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو راست ٹھہرایا ۔

3 اور اُسکے تینوں دوستوں پر بھی اُسکا قہر بھڑکا اِسلئے کہ اُنہیں جواب تو سُوجھا نہیں تو بھی اُنہوں نے ایوبؔ کو مجرم ٹھہرایا ۔

4 اور الیہوُؔ ایوب ؔ سے بات کرنے سے اِسلئے رُکا رہا کہ وہ اُس سے بڑے تھے۔

5 جب اِلیہوُؔ نے دیکھا کہ اُن تینوں کے منہ میں جواب نہ رہا تو اُسکا قہر بھڑک اُٹھا۔

6 اور براکیلؔ بُوزی کا بیٹا الیہوُ ؔ کہنے لگا:۔میں جوان ہُوں اور تم بہت عمر رسیدہ ہو اِسلئے میں رُکا رہا اور اپنی رائے دینے کی جرُات نہ کی ۔

7 میں نے کہا سالُخور دہ لوگ بولیں اور عمر رسیدہ حکمت سکھائیں ۔

8  لیکن اِنسان میں رُوح ہے اور قادِرمطلق کا دم خردبخشتا ہے۔

9 بڑے آدمی ہی عقلمند نہیں ہوتے اور عمر رسیدہ ہی اِنصاف کو نہیں سمجھتے ۔

10 اِسلئے میں کہتا ہُوں میری سُنو ۔میں بھی اپنی رائے دُونگا ۔

11 دیکھو! میں تمہاری باتوں کے لئے رُکا رہا جب تم الفاظ کی تلاش میں تھے ۔میں تمہاری دلیلوں کا منتظر رہا

12  بلکہ میں تمہاری طرف توجہُّ کرتا رہا اور دیکھو تم میں کوئی نہ تھا جو ایوب ؔ کو قائل کرتا یا اُسکی باتوں کا جواب دیتا ۔

13 خبردار یہ نہ کہنا کہ ہم نے حکمت کو پالیا ہے ۔خدا ہی اُسے لاجواب کرسکتا ہے نہ کہ اِنسان ۔

14 کیونکہ نہ اُس نے مجھے اپنی باتوں کا نشانہ بنایا نہ میں تمہاری سی تقریروں سے اُسے جواب دونگا ۔وہ حیران ہیں ۔

15  وہ اب جواب نہیں دیتے ۔اُنکے پاس کہنے کو کوئی بات نہ رہی ۔

16 اور کیا میں رُکارہوں اِسلئے کہ وہ بولتے نہیں ۔اِسلئے کہ وہ چُپ چاپ کھڑے ہیں اور اب جواب نہیں دیتے ؟

17 میں بھی اپنی بات کہونگا ۔میں بھی اپنی رائے دُونگا ۔

18 کیونکہ میں باتوں سے بھرا ہُوں اور جو رُوح میرے اندر ہے وہ مجھے مجبور کرتی ہے۔

19 دیکھو! میرا پیٹ بے نکاس شراب کی مانند ہے ۔وہ نئی مشکوں کی طرح پھٹنے ہی کو ہے ۔

20 میں بولُو نگا تاکہ مجھے تسکین ہو۔میں اپنے لبوں کوکھولُونگا اور جواب دُونگا ۔

21 نہ میں کسی آدمی کی طرفداری کُرونگا نہ کسی شخص کو خوشامد کے خطاب دُونگا

22 کیونکہ مجھے خوشامد کے خطاب دینا نہیں آتا ۔ ورنہ میرا بنانے والا مجھے جلد اُٹھا لیتا ۔

  ایّوب 33

1 تو بھی اَے ایوب ؔ ذرا میری تقریر سُن لے اور میری سب باتوں پر کان لگا۔

2 دیکھ میں نے اپنا منہ کھولا ہے ۔میری زبان نے میرے منہ میں سخن آرائی کی ہے ۔

3 میری باتیں میرے دِل کی راستباز ی کوظاہر کرینگی اور میرے لب جو کچھ جانتے ہیں اُسی کو سچائی سے کہینگے ۔

4 خدا کی رُوح نے مجھے بنایا ہے اور قادِر مطلق کا دم مجھے زندگی بخشتا ہے ۔

5 اگر تو مجھے جواب دے سکتا ہے تو دے اور اپنی باتوں کو میرے سامنے ترتیب دیکر کھڑا ہو جا ۔

6 دیکھ! خدا کے حُضُور میں تیرے برابر ہُوں ۔میں بھی مٹّی سے بناہُوں ۔

7 دیکھ! میرا رُعب تجھے ہراسان نہ کریگا ۔میرا دباؤ تجھ پر بھاری نہ ہوگا ۔

8 یقیناًتونے میرے سُنتے کہا ہے اور میں نے تیری باتیں سُنی ہیں

9  کہ میں صاف اور بے تقصیر ہُوں ۔میں بے گناہ ہُوں اور مجھ میں بدی نہیں ۔

10 وہ میرے خلاف موقع ڈھونڈتا ہے۔وہ مجھے اپنا دُشمن سمجھتا ہے ۔

11 وہ میرے دونوں پاؤں کو کاٹھ میں ٹھونک دیتا ہے ۔وہ میری سب راہوں کی نگرانی کرتا ہے۔

12 دیکھ میں تجھے جواب دیتا ہُوں ۔اِس بات میں تو حق پر نہیں کیونکہ خدا اِنسان سے بڑا ہے ۔

13 تو کیوں اُس جھگڑتا ہے؟ کیونکہ وہ اپنی باتوں میں سے کسی کا حساب نہیں دیتا ۔

14 کیونکہ خدا ایک بار بولتا ہے بلکہ دوبار ۔ خواہ اِنسان اِسکا خیال نہ کرے ۔

15 خواب میں ۔ رات کی رویا میں جب لوگوں کو گہری نیند آتی ہے اور بستر پر سوتے وقت ۔

16 تب وہ لوگوں کے کان کھولتا ہے اور اُنکی تعلیم پر مہر لگاتا ہے

17 تاکہ اِنسان کو اُسکے مقصود سے روکے اور غروُر کو اِنسان سے دُور کرے ۔

18 وہ اُسکی جان کو گڑھے سے بچاتا ہے اور اُسکی زندگی تلوار کی مار سے۔

19 وہ اپنے بستر پر درد سے تنبیہ پاتا ہے اور اُسکی ہڈّیوں میں دائمی جنگ ہے۔

20 یہانتک کہ اُسکا جی روٹی سے اور اُسکی جان لذیذ کھانے سے نفرت کرنے لگتی ہے۔

21 اُسکا گوشت اَیسا سُوکھ جاتا ہے کہ دکھائی نہیں دیتا اور اُسکی ہڈّیاں جو دِکھائی نہیں دیتی تھیں نکل آتی ہیں ۔

22 بلکہ اُسکی جان گڑھے کے قریب پہنچتی ہے اور اُسکی زندگی ہلاک کرنے والوں کے نزدیک ۔

23 وہاں اگر اُسکے ساتھ کوئی فرشتہ ہو یا ہزار میں ایک تعبیر کرنے والا جو اِنسان کو بتائے کہ اُسکے لئے کیا ٹھیک ہے

24 تو وہ اُس پر رحم کرتا اور کہتا ہے کہ اُسے گڑھے میں جانے سے بچائے۔مجھے فدیہ مل گیا ہے۔

25 تب اُسکا جسم بچےّ کے جسم سے بھی تازہ ہوگا اور اُسکی جوانی کے دِن لوٹ آتے ہیں ۔

26 وہ خدا سے دُعا کرتا ہے اور وہ اُس پر مہربان ہوتا ہے ۔اَیسا کہ وہ خوشی سے اُسکا منہ دیکھتا ہے اور وہ اِنسا ن کی صداقت کا بحال کردیتا ہے۔

27  وہ لوگوں کے سامنے گانے اور کہنے لگتا ہے کہ میں نے گناہ کیا اور حق کواُلٹ دیا اور اِس سے مجھے فائدہ نہ ہُوا ۔

28  اُس نے جان کو گڑھے میں جانے سے بچا یا اور میری زندگی روشنی کو دیکھیگی ۔

29 دیکھو! خدا آدمی کے ساتھ یہ سب کام دوبار بلکہ تین بار کرتا ہے

30 تا کہ اُسکی جان کو گڑھے سے لوٹا لائے اور وہ زندوں کے نو ر سے منُّور ہو۔

31 اَے ایوب ؔ ! توجہ سے میری سُن ۔ خاموش رہ اور میں بولونگا ۔

32  اگر تجھے کچھ کہنا ہے تو مجھے جواب دے ۔بول کیونکہ میں تجھے راست ٹھہرانا چاہتا ہُوں ۔

33 اگر نہیں توتُو میری سُن ۔ خاموش رہ اور میں تجھے دانائی سکھاؤنگا ۔

  ایّوب 34

1 اِسکے علاوہ اِلیہوُؔ نے یہ بھی کہا :۔

2 اَے تم عقلمند لوگو! میری باتیں سُنو اور اَے تم جو اہل معرفت ہو ! میری طرف کان لگا ؤ

3 کیونکہ کان باتوں کو پرکھتا ہے جیسے زبان کھانے کو چکھتی ہے ۔

4 جو کچھ ٹھیک ہے ہم اپنے لئے چُن لیں ۔جو بھلا ہے ہم آپس میں جان لیں ۔

5 کیونکہ ایوب ؔ نے کہا میں صادق ہُوں اور خدا نے میری حق تلفی کی ہے ۔

6 اگرچہ میں حق پر ہُوں تو بھی جھوٹا ٹھہرتا ہُوں ۔گو میں بے تقصیر ہُوں ۔ میرا زخم لاعلاج ہے۔

7 ایوب ؔ سا بہادر کون ہے جو تمسخر کو پانی کی طرح پی جاتا ہے ؟

8  جو بدکرداروں کی رفافت میں چلتا اور شریرلوگوں کے ساتھ پھرتا ہے۔

9  کیونکہ اُس نے کہا ہے کہ آدمی کو کچھ فائدہ نہیں کہ وہ خدا میں مسرور رہے ۔

10 اِسلئے اَے اہل خرد میری سُنو۔یہ ہر گز ہو نہیں سکتا کہ خدا شرارت کا کام کرے اور قادِرمطلق بدی کرے ۔

11 وہ اِنسان کو اُسکے اعمال کے مطابق جزادیگا اور اَیسا کریگا کہ ہر کسی کو اپنی ہی راہوں کے مطابق بدلہ ملیگا ۔

12 یقیناخدا بُرائی نہیں کریگا ۔ قادِرمطلق سے بے اِنصافی نہ ہوگی۔

13 کس نے اُسکو زمین پر اختیار دیا ؟یا کس نے ساری دُنیا کا اِنتظام کیا ہے؟

14 اگر وہ اِنسان سے اپنا دِل لگائے ۔اگر وہ اپنی رُوح اور اپنے دم کو واپس لے لے

15 تو تمام بشر اِکٹھے فنا ہوجائینگے اور اِنسان پھر مٹّی میں مل جائیگا ۔

16 سو اگر تجھ میں سمجھ ہے تو اِسے سُن لے اور میری باتوں پر توجہ کر۔

17 کیا وہ جو حق سے عداوت رکھتا ہے حکومت کریگا ؟اور کیا تو اُسے جو عادل اور قادِر ہے ملزم ٹھہرائیگا۔

18 وہ تو بادشاہ سے کہتا ہے تو ذیل ہے اور شریفوں سے تم شریر ہو ۔

19 وہ اُمرا کی طرفداری نہیں کرتا اور امیر کو غریب سے زیادہ نہیں مانتا کیونکہ وہ سب اُسی کے ہاتھ کی کاریگری ہیں ۔

20 وہ دم بھر میں آدھی رات کو مر جاتے ہیں ۔لوگ ہلائے جاتے اور گذر جاتے ہیں ۔اور زبردست لوگ بغیر ہاتھ لگائے اُٹھالئے جاتے ہیں ۔

21 کیونکہ اُسکی آنکھیں آدمی کی راہوں پر لگی ہیں اور وہ اُسکی سب روِشوں کو دیکھتا ہے ۔

22 نہ کوئی اَیسی سب تاریکی نہ موت کاسایہ ہے جہاں بدکردار چھپ سکیں ۔

23 کیونکہ اُسے ضرور نہیں کہ آدمی کا زیادہ خیال کرے تاکہ وہ خدا کے حُضُور عدالت میں جائے ۔

24 وہ بلا تفتیش زبردستوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا اور اُنکی جگہ اَوروں کو برپا کرتا ہے۔

25 اِسلئے وہ اُنکے کاموں کا خیال رکھتا ہے اور وہ اُنہیں رات کو اُلٹ دیتا ہے اَیسا کہ وہ ہلاک ہوجاتے ہیں ۔

26 وہ اَوروں کے دیکھتے ہُوئے اُنکو اَیسا مارتا ہے جیسا شریروں کو

27  اِسلئے کہ وہ اُسکی پیروی سے پھرگئے اور اُسکی کسی راہ کا خیال نہ کیا ۔

28  یہانتک کہ اُنکے سبب سے غریبوں کی فریاد اُسکے حُضُور پہنچی اور اُس نے مصیبت زدوں کی فریاد سُنی ۔

29 جب وہ راحت بخشے تو کون اُسے دیکھ سکتا ہے؟ جب وہ منہ چھپالے تو کون اُسے دیکھ سکتا ہے؟خواہ کوئی قوم ہو یا آدمی ۔دونوں کے ساتھ یکساں سلُوک ہے ۔

30  تاکہ بے دین آدمی سلطنت نہ کرے اور لوگوں کو پھندے میں پھنسانے کے لئے کوئی نہ ہو۔

31 کیونکہ کیا کسی نے خدا سے کہا ہے میں نے سزا اُٹھالی ہے ۔ میں اب بُرائی نہ کرُونگا ۔

32  جو مجھے دِکھائی نہیں دیتا وہ تو مجھے سکھا ۔اگر میں نے بدی کی ہے تو اب اَیسا نہیں کرونگا ۔

33 کیا اُسکا اجر تیری مرضی پر ہوکہ تو اُسے نامنظور کرتا ہے؟ کیونکہ تجھے فیصلہ کرنا ہے نہ کہ مجھے ۔اِسلئے جو کچھ تو جانتا ہے کہدے ۔

34 اہل خرو مجھ سے کہینگے بلکہ ہر عقلمند جو میری سُنتا ہے کہیگا

35 ایوب ؔ نادانی سے بولتا ہے او راُسکی باتیں حکمت سے خالی ہیں ۔

36 کاشکہ ایوب ؔ آخر تک آزمایا جاتا کیونکہ وہ شریروں کی طرح جواب دیتا ہے ۔

37 اِسلئے کہ وہ اپنے گناہ پر بغاوت کو بڑھاتا ہے ۔ وہ ہمارے درمیان تالیا ں بجاتا ہے اور خدا کے خلاف بہت سی باتیں بناتا ہے۔

  ایّوب 35

1 اِسکے علاوہ اِلہیوؔ نے یہ بھی کہا:۔

2 کیا تو اِسے حق سمجھتا ہے یا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تیری صداقت خدا کی صداقت سے زیادہ ہے۔

3  جو تو کہتا ہے کہ مجھے اِس گنہگار ہونے کی نسبت کونسا زیادہ فائدہ ہوگا ؟

4 میں تجھے اور تیرے ساتھ تیرے رفیقوں کو جواب دُونگا ۔

5  آسمان کی طرف نظر کر اور دیکھ اور افلاک پر جو تجھ سے بلند ہیں نگاہ کر ۔

6 اگر تو گناہ کرتا ہے تو اُسکا کیا بگاڑتا ہے؟ اور اگر تیری تقصیر یں بڑھ جائیں تو تُو اُسکا کیا کرتا ہے؟

7 اگر تو صادق ہے تو اُسکو کیا دے دیتا ہے؟ یا اُسے تیرے ہاتھ سے کیا مل جاتا ہے؟

8 تیری شرارت تجھ جیسے آدمی کے لئے ہے اور تیری صداقت آدم زاد کے لئے ۔

9  ظلم کی کثرت کی وجہ سے وہ چلاتے ہیں ۔زبردست کے بازُو کے سبب سے مدد کے لئے دُہائی دیتے ہیں ۔

10 پرکوئی نہیں کہتا کہ خدا میرا خالق کہاں ہے جو رات کے وقت نغمے عنایت کرتا ہے۔

11 جو ہم کو زمین کے جانوروں سے زیادہ تعلیم دیتا ہے اور ہمیں ہوا کے پرندوں سے زیادہ عقلمند بناتا ہے ؟

12  وہ دُہائی دیتے ہیں پر کوئی جواب نہیں دیتا ۔ یہ بُرے آدمیوں کے عزور کے سبب سے ہے ۔

13 یقیناًخدا بطالت کو نہیں سُنیگا اور قادِ ر مطلق اُسکالحا ظ نہ کر یگا ۔

14 خا صکر جب تو کہتا ہے کہ تو اُسے دیکھتا نہیں ۔ مقد مہ اُ سکے سامنے ہے اور تو اُ سکے لئے ٹھہرا ہُوا ہے۔

15 پر اب چونکہ اُ س نے اپنے غضب میں سزا نہ دی اور وہ عزور کا زیادہ خیال نہیں کرتا

16 اِ سلئے ایوب ؔ خودبینی کے سبب سے اپنا منہ کھولتا ہے اور نادانی سے باتیں بناتا ہے۔

  ایّوب 36

1 پھر اِ لیہوُؔ نے یہ بھی کہا :۔

2 مجھے ذرا اِجازت دے اور میں تجھے بتا ؤنگا ۔ کیونکہ خدا کی طرف سے مجھے کچھ اور بھی کہنا ہے۔

3 میں اپنے علم کو دُور سے لاؤنگا اور راستی اپنے خالق سے منسوب کرونگا

4 کیونکہ فی الحقیقت میری باتیں جھوٹی نہیں ہیں ۔وہ جو تیرے ساتھ ہے علم میں کامل ہے۔

5 دیکھ! خدا قادِر ہے اور کسی کو حقیر نہیں جانتا ۔ وہ فہم کی قوت میں غالب ہے۔

6 وہ شریروں کی زندگی کو برقرار نہیں رکھتا بلکہ مصیبت زدوں کو اُنکا حق عطا کرتا ہے۔

7 وہ صادقو ں کی طرف سے اپنی آنکھیں نہیں پھرتا بلکہ اُنہیں بادشاہوں کے ساتھ ہمیشہ کے لئے تخت پر بٹھاتا ہے اور وہ سرفراز ہوتے ہیں ۔

8 اور اگر وہ بیڑیوں سے جکڑے جائیں اور مصیبت کی رسیّوں سے بندھیں

9 تو وہ اُنہیں اُنکا عمل اور اُنکی تقصیر یں دِکھاتا ہے کہ اُنہوں نے گھمنڈ کیا ۔

10 وہ اُنکے کان کو تعلیم کے لئے کھولتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ بدی سے باز آئیں ۔

11 اگر وہ سُن لیں اور اُسکی عبادت کریں تو اپنے دِن اِقبالمند ی میں اور اپنے برس خوشحالی میں بسر کر ینگے ۔

12  پر اگر نہ سُنیں تو وہ تلوار سے ہلاک ہونگے اور جہالت میں مر ینگے ۔

13 لیکن وہ جو دِل میں بے دین ہیں غضب کو رکھ چھوڑتے ہیں ۔ جب وہ اُنہیں باندھتا ہے تو وہ مدد کے لئے دُہائی نہیں دیتے ۔

14 وہ جوانی میں مرتے ہیں اور اُنکی زندگی لُوطیوں کے درمیان برباد ہوتی ہے ۔

15 وہ مصیبت زدہ کو اُسکی مصیبت سے چھٹراتا ہے اور ظلم میں اُنکے کان کھولتا ہے ۔

16 بلکہ وہ تجھے بھی دُکھ سے چھُٹکارا دیکر اَیسی وسیع جگہ میں جہاں تنگی نہیں ہے پہنچا دیتا اور جو کچھ تیرے دسترخوان پر چُنا جاتا ہے وہ چکنائی سے پُر ہوتا

17 پر توُ تو شریروں کے مقدمہ کی تا ئید کرتا ہے ۔ اِسلئے عدل اور اِنصاف تجھ پر قابض ہیں ۔

18 خبردار ! تیرا قہر تجھ سے تکفیر نہ کرائے اور فدیہ کی فراوانی تجھے گمراہ نہ کرے ۔

19 کیا تیرا رونا یا تیری قوت وتوانائی اِ س بات کے لئے کافی ہیں کہ تو دُکھ میں نہ پڑے ؟

20 اُس رات کی خواہش نہ کر جس میں قومیں اپنے مسکنوں سے اُٹھالی جاتی ہیں ۔

21 ہوشیار رہ ! بدی کی طرف راغب نہ ہو کیونکہ تو نے مصیبت کو نہیں بلکہ اِسی کو چُنا ہے۔

22 دیکھ! خدا اپنی قدرت سے بڑے بڑے کام کرتا ہے۔کونسا اُستاد اُسکی مانند ہے؟

23 کس نے اُسکا راستہ بتایا ؟ یا کون کہہ سکتا ہے کہ تو نے ناراستی کی ہے ؟

24 اُسکے کام کی بڑائی کرنا یاد رکھ جس کی تعریف لوگ گاتے رہے ہیں ۔

25 سب لوگوں نے اِسکو دیکھا ہے۔ اِنسان اُسے دُور سے دیکھتا ہے ۔

26 دیکھ ! خدابُزرُگ ہے اور ہم اُسے نہیں جانتے ۔ اُسکے برسوں کا شمار دریافت سے باہر ہے ۔

27 کیونکہ وہ پانی کے قطروں کو اُوپر کھینچتا ہے جو اُسی کے بخرات سے مینہ کی صورت میں ٹپکتے ہیں

28 جنکو افلاک اُنڈیلتے اور اِنسان پر کثرت سے برساتے ہیں۔

29 بلکہ کیا بادلوں کے پھیلاؤ اور اُسکے شامیانہ کی گرجوں کو سمجھ سکتا ہے؟

30 دیکھو!وہ اپنے نور کو اپنے چوگرد پھیلا تا ہے اور سمندر کی تہ کو ڈھانکتا ہے ۔

31 کیونکہ اِن ہی سے وہ قوموں کا اِنصاف کرتا ہے اور خوراک اِفراط سے عطا فرماتا ہے۔

32 وہ بجلی کو اپنے ہاتھوں میں لیکر اُسے حکم دیتا ہے کہ دُشمن پر گرے۔

33 اِس کی کڑک اُسی کی خبر دیتی ہے ۔چوپائے بھی طُوفان کی آمد بتاتے ہیں ۔

  ایّوب 37

1 اِس بات سے بھی میرا دِل کانپتا ہے اور اپنی جگہ سے اُچھل پڑتا ہے ۔

2 ذرا اُسکے بولنے کی آواز کو سُنو اور اُس زمزمہ کو جو اُسکے منہ سے نکلتا ہے ۔

3 وہ اُسے سارے آسمان کے نیچے اور اپنی بجلی کو زمین کی اِ نتہا تک بھیجتا ہے ۔

4 اِسکے بعد رعد کی آواز آتی ہے۔ وہ اپنے جلال کی آواز سے گرجتا ہے اور جب اُسکی آواز سُنائی دیتی ہے تو وہ اُسے روکتا ہے ۔

5 خدا عجیب طور پر اپنی آواز سے گرجتا ہے ۔ وہ بڑے بڑے کام کرتا ہے جنکو ہم سمجھ نہیں سکتے ۔

6 کیونکہ وہ برف کو فرماتا ہے کہ تو زمین پر گر ۔ اِسی طرح وہ بارش سے اور موسلادھار مینہ سے کہتا ہے ۔

7  وہ ہر آدمی کے ہاتھ پر مہر کردیتا ہے تاکہ سب لوگ جنکو اُس نے بنایا ہے اِس بات کو جان لیں ۔

8  تب درِندے غاروں میں گھس جاتے اور اپنی اپنی ماند میں پڑے رہتے ہیں ۔

9 آندھی جنوب کی کوٹھری سے اور سردی شمال سے آتی ہے۔

10  خدا کے دم سے برف جم جاتی ہے اور پانی کا پھیلاؤ تنگ ہو جاتا ہے ۔

11  بلکہ وہ گھٹا پر نمی کو لادتا ہے اور اپنے بجلی والے بادلوں کو دُور تک پھیلا تا ہے۔

12 اُسی کی ہدایت سے وہ اِدھر اُدھر پھرائے جاتے ہیں تا کہ جو کچھ وہ اُنہیں فرمائے اُسی کو وہ دُنیا کے آباد حصّہ پر انجام دیں

13 خواہ تنبیہ کے لئے یا اپنے ملک کے لئے ۔ یا رحمت کے لئے وہ اُسے بھیجے ۔

14 اَے ایوبؔ اِسکو سُن لے ۔چُپ چاپ کھڑا رہ اور خدا کے حیرت انگیز کاموں پر غور کر۔

15 کیا تجھے معلوم ہے کہ خدا کیونکر اُنہیں تاکید کرتا ہے اور اپنے بادل کی بجلی کو چمکاتا ہے؟

16 کیا تو بادلوں کے مُوازنہ سے واقف ہے؟ یہ اُسی کے حیرت انگیز کام ہیں جو علم میں کامل ہے۔

17 جب زمین پر جنوبی ہوا کی وجہ سے سناٹا ہوتا ہے تو تیرے کپڑے کیوں گرم ہوجاتے ہیں ؟

18 کیا تو اُسکے ساتھ فلک کو پھیلاسکتا ہے جو ڈھلے ہُوئے آئینہ کی طرح مضبوط ہے؟

19  ہمکو سکھا کہ ہم اُس سے کیا کہیں کیونکہ اندھیرے کے سبب سے ہم اپنی تقریر کو دُرست نہیں کرسکتے

20 کیا اُسکو بتایا جائے کہ میں بولنا چاہتا ہُوں؟ یا کیا کوئی یہ خواہش کرے کہ وہ نگل لیا جائے ؟

21 ابھی تو آدمی اُس نور کونہیں دیکھتے جو افلاک پر روشن ہے لیکن ہوا چلتی ہے اور اُنہیں صاف کر دیتی ہے۔

22 شمال سے سُنہری روشنی آتی ہے۔خدا مہیب شوکت سے مُلبسّ ہے ۔

23 ہم قادِرمطلق کو پا نہیں سکتے ۔ وہ قُدرت اور عدل میں شاندار ہے اور اِنصاف کی فراوانی میں ظلم نہ کریگا ۔

24 اِسی لئے لوگ اُس سے ڈرتے ہیں ۔وہ دانادِلوں کی پروا نہیں کرتا ۔

  ایّوب 38

1 تب خداوند نے ایوب ؔ کو بگولے میں سے یوں جواب دیا:۔

2 یہ کون ہے جو نادانی کی باتوں سے مصلحت پر پردہ ڈالتا ہے؟

3  مرد کی مانند اب اپنی کمر کس لے کیونکہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تو مجھے بتا ۔

4 تو کہاں تھا جب میں نے زمین کی بنیاد ڈالی ؟تو دانشمند ہے تو بتا ۔

5 کیا تجھے معلوم ہے کس نے اُسکی ناپ ٹھہرائی ؟ یا کس نے اُس پر سُوت کھینچا؟

6 کس چیز پر اُسکی بنیاد ڈالی گئی ؟یا کس نے اُسکے کونے کا پتھر بٹھایا

7 جب صبح کے ستارے ملکر گاتے تھے اور خدا کے سب بیٹے خوشی سے للکارتے تھے ؟

8 یا کس نے سمندر کو دروازوں سے بند کیا جب وہ اَیسا پُھوٹ نکلا گویا رَحیم سے ۔

9 جب میں نے بادل کو اُسکا لباس بنایا اور گہری تاریکی کو اُسکا لپٹینے کا کپڑا

10 اور اُسکے لئے حدّ ٹھہرائی اور بینڈے اور کواڑ لگائے

11 اور کہا یہانتک تو آنا پر آگے نہیں اور یہاں تیری بپھرتی ہُوئی موجیں رُک جائینگی ؟

12 کیا تو نے اپنی عمر میں کبھی صبح پر حکمرانی کی اور کیا تونے فجر کو اُسکی جگہ بتائی

13 تاکہ وہ زمین کے کناروں پر قبضہ کرے اور شریر لوگ اُس میں جھاڑ دِئے جائیں ؟

14 وہ اَیسے بدلتی ہے جیسے مہر کے نیچے چکنی مٹی اور تمام چیزیں کپڑے کی طرح نمایاں ہوجاتی ہیں ۔

15 اور شریروں سے اُنکی روشنی روک لی جاتی ہے اور بلند بازو توڑا جاتا ہے ۔

16 کیا تو سمندر کے سوتوں میں داخل ہُوا ہے؟یا گہراؤ کی تھاہ میں چلا ہے؟

17 کیا موت کے پھاٹک تجھ پر ظاہر کر دِئے گئے ہیں ؟یا تو نے موت کے سایہ کے پھاٹکوں کو دیکھ لیا ہے؟

18 کیا تو نے زمین کی چوڑائی کو سمجھ لیا ہے ؟اگر تو یہ سب جانتا ہے تو بتا ۔

19 نور کے مسکن کا راستہ کہاں ہے ۔رہی تاریکی ۔ سو اُسکا مکان کہاں ہے

20 تاکہ تو اُسے اُسکی حدّ تک پہنچا دے اور اُسکے مکان کی راہوں کو پہچانے؟

21 بے شک تو جانتا ہوگا کیونکہ تو اُسو قت پیدا ہُوا تھا اور تیرے دِنوں کا شمار بڑا ہے!

22 کیا تو برف کے مخزنوں میں داخل ہُوا ہے یا اولوں کے مخزنوں کو تو نے دیکھا ہے

23 جنکو میں نے تکلیف کے وقت کے لئے اور لڑائی اور جنگ کے دِن کی خاطر رکھ چھوڑا ہے ؟

24 روشنی کس طریق سے تقسیم ہوتی ہے یا مشرقی ہوا زمین پر پھیلائی جاتی ہے؟

25  سیلاب کے لئے کس نے نالی کاٹی یا رعد کی بجلی کے لئے راستہ

26  تاکہ اُسے غیر آباد زمین پر برسائے اور بیابان پر جس میں اِنسان نہیں بستا

27 تاکہ اُجڑی اور سُوئی زمین کو سیراب کرے اور نرم نرم گھاس اُگائے؟

28  کیا بارش کا کوئی باپ ہے؟ یا شبنم کے قطرے کس سے تولُّد ہُوئے ؟

29  یخ کس کے بطن سے نکلا اور آسمان کے سفید پالے کو کس نے پیدا کیا؟

30 پانی پتھر سا ہوجاتا ہے اور گہراؤ کی سطح جم جاتی ہےَ

31 کیا تو عقدِثرُیاّؔ کو باندھ سکتا یا جباّرؔ کے بندھن کو کھول سکتا ہے ؟

32  کیا تو منطقتہ الُبرُوج کو اُنکے وقتوں پر نکال سکتا ہے؟یا بناتُ النعشّ کی اُنکی سہیلیوں کے ساتھ رہبری کرسکتا ہے؟

33  

34 کیا تو بادلوں تک اپنی آواز بلند کرسکتا ہے تاکہ پانی کی فراوانی تجھے چھپالے ؟

35 کیا تو بجلی کو روانہ کرسکتا ہے کہ وہ جائے اور تجھ سے کہے میں حاضر ہُوں ؟

36 باطن میں حکمت کس نے رکھی ؟اور دِل کو دانش کس نے بخشی ؟

37 بادلوں کو حکمت سے کون گن سکتا ہے؟یا کون آسمان کی مشکوں کو اُنڈیل سکتا ہے

38 جب گرد ملکر تودہ بن جاتی ہے اور ڈھیلے باہم سٹ جاتے ہیں !

39 کیا تو شیرنی کے لئے شکار مار دیگا یا ببر کے بچوں کو آسُودہ کردیگا

40 جب وہ اپنی ماندوں میں بیٹھے ہوں اور گھات لگائے آڑ میں دبکے ہوں ؟

41 پہاڑی کُّوے کے لئے کون خوراک مُہیا کرتا ہے جب اُسکے بچے خدا سے فریاد کرتے اور خوراک نہ ملنے سے اُڑتے پھرتے ہیں ؟

  ایّوب 39

1 کیا تو جانتا ہے پہاڑ کی جنگلی بکریاں کب بچے دیتی ہیں ؟یا جب ہرنیاں بیاتی ہیں تو کیا تو دیکھ سکتا ہے ؟

2 کیا تو اُن مہینوں کو جنہیں وہ پُورا کرتی ہیں گن سکتا ہے؟یا تجھے وہ وقت معلوم ہے جب وہ بچے دیتی ہیں ؟

3 وہ جھک جاتی ہیں ۔وہ اپنے بچے دیتی ہیں اور اپنے درد سے رہائی پاتی ہیں ۔

4 اُنکے بچے موٹے تازہ ہوتے ہیں ۔وہ کھلے میدان میں بڑھتے ہیں ۔وہ نکل جاتے ہیں اور پھر نہیں لوٹتے ۔

5  گورخر کو کس نے آزاد کیا؟ جنگلی گدھے کے بند کس نے کھولے ؟

6 بیابان کو میں نے اُسکا مکان بنایا اور زمین شور کو اُسکا مسکن ۔

7 وہ شہر کے شور وغل کو ہیچ سمجھتا ہے اور ہانکنے والے کی ڈانٹ کو نہیں سُنتا ۔

8 پہاڑوں کا سلسلہ اُسکی چراگاہ ہے اور وہ ہریالی کی تلاش میں رہتا ہے۔

9 کیا جنگلی سانڈ تیری خدمت پر راضی ہوگا؟کیا وہ تیری چرنی کے پاس رہیگا ؟

10 کیا تو جنگلی سانڈ کو رسیّ سے باندھکر ریگھاری میں چلاسکتا ہے؟یا وہ تیرے پیچھے پیچھے وادیوں میں ہینگا پھیریگا؟

11 کیا تو اُسکی بڑی طاقت کے سبب سے اُس پر بھروسا کریگا؟یا کیا تو اپنا کام اُس پر چھوڑ دیگا؟

12  کیا تو اُس پر اعتماد کریگا کہ وہ تیرا غلّہ گھر لے آئے اور تیرے کھلیہان کا اناج اِکٹھا کرے ؟

13 شُتر مُرغ کے بازُو آسودہ ہیں لیکن کیا اُسکے پر وبال سے شفقت ظاہر ہوتی ہے؟

14 کیونکہ وہ تو اپنے انڈے زمین پر چھوڑ دیتی ہے اور ریت سے اُنکو گرمی پہنچاتی ہے

15 اور بھول جاتی ہے کہ وہ پاؤں سے کچلے جائینگے یا کوئی جنگلی جانور اُنکو رَوند ڈالیگا ۔

16 وہ اپنے بچوں سے اَیسی سخت دِلی کرتی ہے گویا وہ اُسکے نہیں ۔خواہ اُسکی محنت رایگاں جائے اُسے کچھ خوف نہیں ۔

17 کیونکہ خدا نے اُسے عقل سے محروم رکھا اور اُسے سمجھ نہیں دی ۔

18 جب وہ تنکر سیدھی کھڑی ہوجاتی ہے تو گھوڑے اور اُسکے سوار دونوں کو ناچیز سمجھتی ہے۔

19  کیا گھوڑے کو اُسکا زور تو نے دیا ہے ؟ کیا اُسکی گردن کو لہراتی ایال سے تو نے مُلبسّ کیا ؟

20 کیا اُسے ٹِڈّی کی طرح تونے کدایا ہے ۔اُسکے فرّانے کی شان مُہیب ہے ۔

21 وہ وادی میں ٹاپ مارتا ہے اور اپنے زور میں خوش ہے۔ وہ مُسلّح آدمیوں کا سامنا کرنے کو نکلتا ہے۔

22 وہ خوف کو ناچیز جانتا ہے اور گھبراتا نہیں اور وہ تلوار سے منہ نہیں مورتا ۔

23 ترکش اُس پر کھڑکھڑاتا ہے ۔چمکتا ہُوا بھالا اور سانگ بھی۔

24 وہ تُندی اور قہر مین زمین پیمائی کرتا ہے اور اُسے یقین نہیں ہوتا کہ یہ تُرہی کی آواز ہے۔

25 جب جب تُرہی بجتی ہے وہ ہِن ہِن کرتا ہے اور لڑائی کو دُور سے سُونگھ لیتا ہے۔سرداروں کی گرج اور للکار کو بھی ۔

26 کیا باز تیری حکمت سے اُڑتا ہے اور جنوب کی طرف اپنے بازُو پھیلاتا ہے؟

27 کیا عقاب تیرے حکم سے اُوپر چڑھتا ہے اور بلند ی پر اپنا گھونسلا بناتا ہے؟

28 وہ چٹان پر رہتا اور وہیں بسیرا کرتا ہے ۔یعنی چٹان کی چوٹی پر اور پناہ کی جگہ میں ۔

29 وہیں سے وہ شکار تاڑ لیتا ہے اُسکی آنکھیں اُسے دُور سے دیکھ لیتی ہیں ۔

30 اُسکے بچے بھی خون چوُستے ہیں اور جہاں مقتول ہیں وہاں وہ بھی ہے۔

  ایّوب 40

1 خداوند نے ایوب ؔ سے بھی یہ کہا :۔

2 کیا جو فُضول حُجت کرتا ہے وہ قادِر مطلق سے جھگڑاکرے ؟ جو خدا سے بحث کرتا ہے وہ اِسکا جواب دے ۔

3 تب ایوب ؔ نے خداوند کو جواب دِیا:۔

4 دیکھ ! میں ناچیز ہُوں ۔میں تجھے کیا جواب دُوں ؟میں اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھتا ہُوں ۔

5 اب جواب نہ دُونگا ۔ ایکبار میں بول چُکا بلکہ دوبار ۔ پر اب آگے نہ بڑھُونگا ۔

6 تب خداوند نے ایوب ؔ کو بگولے میں سے جواب دیا:۔

7 مرد کی مانند اب اپنی کمر کس لے ۔میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تومجھے بتا۔

8 کیا تو مجھے مجرم ٹھہرائیگا تاکہ خود راست ٹھہرے ؟

9 یا کیا تیرا بازو خدا کا سا ہے ؟اور کیا تو اُسکی سی آواز سے گرج سکتا ہے ؟

10 اب اپنے کوشان وشوکت سے آراستہ کر اور عزت وجلال سے مُلبسّ ہوجا۔

11 اپنے قہر کے سیلابوں کو بہا دے اور ہر مغرُور کو دیکھ اور ذلیل کر۔

12 ہر مغرور کو دیکھ اور اُسے نیچا کر اور شریروں کو جہاں کھڑے ہوں پامال کردے ۔

13 اُنکو اِکٹھا مٹی میں چھپا دے اور اُس پوشیدہ مقام میں اُنکے منہ باندھ دے ۔

14 تب میں بھی تیرے بارے میں مان لُونگا کہ تیرا ہی دہنا ہاتھ تجھے بچا سکتا ہے۔

15 اب ہِپوّ پوٹیمس کو دیکھ جسے میں نے تیرے ساتھ بنایا ۔وہ بیل کی طرح گھاس کھاتا ہے۔

16 دیکھ! اُسکی طاقت اُسکی کمر میں ہے اور اُسکا زور اُسکے پیٹ کے پٹھوں میں۔

17 وہ اپنی دُم کو دیودار کی طرح ہلاتا ہے ۔اُسکی رانوں کی نسیں باہم پیوستہ ہیں ۔

18 اُسکی ہڈّیوں پیتل کے نلوں کی طرح ہیں ۔اُسکے اعضا لوہے کے بینڈوں کی مانند ہیں ۔

19 وہ خدا کی خاص صنعت ہے۔اُسکے خالق ہی نے اُسے تلوار بخشی ہے۔

20 یقیناًٹیلے اُسکے لئے خوراک بہم پہنچاتے ہیں جہاں میدان کے سب جانور کھیلتے کُودتے ہیں ۔

21 وہ کنول کے درخت کے نیچے لیٹتا ہے۔سرکنڈوں کی آڑا اور دلدل ہیں ۔

22 کنول کے درخت اُسے اپنے سایہ کے نیچے چھپا لیتے ہیں ۔نالے کی بیدیں اُسے گھیر لیتی ہیں ۔

23 دیکھ! اگر دریا میں باڑھ ہو تو وہ نہیں کانپتا ۔خواہ یردنؔ اُسکے منہ تک چڑھ آئے وہ بے خوف ہے۔

24 جب وہ چوکس ہو تو کیا کوئی اُسے پکڑلیگا یا پھند الگا کر اُسکی ناک کو چھید یگا؟

  ایّوب 41

1 کیا تو مگر کو شست سے باہر نکال سکتا ہے؟یا رسّی سے اُسکی زبان کو دبا سکتا ہے ؟

2 کیا تو اُسکی ناک میں رسّی ڈال سکتا ہے؟اُسکا جبڑا میخ سے چھید سکتا ہے ؟

3 کیا وہ تیری بہت منت سماجت کریگا ؟ یا تجھ سے میٹھی میٹھی باتیں کہیگا ؟

4 کیا وہ تیرے ساتھ عہد باندھیگا کہ تو اُسے ہمیشہ کے لئے نوکر بنالے ؟

5 کیا تو اُس سے اَیسے کھیلیگا جیسے پرندہ سے ؟ یا کیا تو اُسے اپنی لڑکیوں کے لئے باندھ دیگا ؟

6  کیا وہ اُسے سوداگروں میں تقسیم کرینگے ؟

7 کیا تو اُسکی کھال کو بھالوں سے یا اُسکے سرکو ماہی گیر کے تر سُولوں سے بھر سکتا ہے ؟

8 تو اپنا ہاتھ اُس پر دھرے تو لڑائی کو یاد رکھیّگا اور پھر اَیسا نہ کریگا۔

9 دیکھ! اُسکے بارے میں اُمید بے فائدہ ہے ۔کیا کوئی اُسے دیکھتے ہی گر نہ پڑے گا؟

10 کوئی اَیسا تُند خو نہیں جو اُسے چھیڑنے کی جُرات کرے ۔ پھر وہ کون ہے جو میرے سامنے کھڑا ہوسکے ؟

11 کس نے مجھے پہلے کچھ دیا ہے کہ میں اُسے ادا کُروں ؟جو کچھ سارے آسمان کے نیچے ہے وہ میرا ہے۔

12 نہ میں اُسکے اعضا کے بارے میں خاموش رہونگا نہ اُسکی بڑی طاقت اور خوبصورت ڈیل ڈول کے بارے میں ۔

13 اُسکے اُوپر کا لباس کون اُتا ر سکتا ہے؟اُسکے جبڑوں کے بیچ کون آئیگا؟

14 اُسکے منہ کے کواڑوں کو کون کھول سکتا ہے ؟اُسکے دانتوں کا دائرہ دہشتناک ہے۔

15 اُسکی ڈھالیں اُسکا فخر ہیں۔جو گویا سخت مہر سے پیوستہ کی گئی ہیں۔

16 وہ ایک دُوسری سے اَیسی جُٹی ہُوئی ہیں کہ اُنکے درمیان ہوا بھی نہیں آسکتی ۔

17  وہ ایک دوسری سے باہم پیوستہ ہیں ۔ وہ آپس میں اَیسی سٹی ہیں کہ جُدا نہیں ہوسکتیں ۔

18 اُسکی چھینکیں نُورافشانی کرتی ہیں ۔اُسکی آنکھیں صبح کے پپوٹوں کی طرح ہیں ۔

19 اُسکے منہ سے جلتی مشعلیں نکلتی ہیں اور آگ کی چنگاریاں اُڑتی ہیں

20 اُسکے نتھنوں سے دُھواں نکلتا ہے۔گویا کھولتی دیگ اور اور سُلگتے سرکنڈے سے ۔

21 اُسکا سانس کوئلوں کو دہکا دیتا ہے اور اُسکے منہ سے شعلے نکلتے ہیں ۔

22  طاقت اُسکی گردن میں بستی ہے اور دہشت اُسکے آگے آگے چلتی ہے ۔

23 اُسکے گوشت کی تہیں آپس میں جُڑی ہُوئی ہیں ۔وہ اُس پر خوب سٹی ہیں اور ہٹ نہیں سکتیں ۔

24 اُسکا دِل پتھر کی طرح مضبوط ہے بلکہ چکی کے نیچے پاٹ کی طرح ۔

25 جب وہ اُٹھ کھڑ ا ہوتا ہے تو زبردست لوگ ڈر جاتے ہیں اور گھبرا کو حوا س باختہ ہوجاتے ہیں ۔

26 اگر کوئی اُس پر تلوار چلائے تو اُس سے کچھ نہیں بنتا ۔نہ بھالے ۔نہ تیر۔ نہ برچھی سے ۔

27 وہ لوہے کو بھوسا سمجھتا ہے اور پیتل کو گلی ہُوئی لکڑی ۔

28 تیر اُسے بھگا نہیں سکتا ۔ فلاخن کے پتھر اُس پت تنکے سے ہیں ۔

29 لاٹھیاں گویا تنکے ہیں ۔وہ برچھی کے چلنے پر ہنستا ہے ۔

30 اُسکے نیچے کے حصیّ تیز ٹھیکروں کی مانند ہیں۔ وہ کیچڑ پر گویا ہینگا پھیرتا ہے۔

31 وہ گہراؤ کو دیگ کی طرح کھولاتا اور سمندر کو مرہم کی مانند بنا دیتا ہے ۔

32 وہ اپنے پیچھے چمکیلی لیک چھوڑتا جاتا ہے۔گہراؤ گویا سفید نظر آنے لگتا ہے ۔

33 زمین پر اُسکا نظیر نہیں جو اَیسا بے خوف پیدا ہُوا ہو۔

34 وہ ہر اُونچی چیز کو دیکھتا ہے اور سب مغروُروں کا بادشاہ ہے۔

  ایّوب 42

1 تب ایوب ؔ نے خداوندکو یوں جواب دیا:۔

2  میں جانتا ہُوں کہ تو سب کچھ کرسکتا ہے اور تیرا کوئی اِرادہ رُک نہیں سکتا ۔

3 یہ کون ہے جو نادانی سے مصلحت پر پردہ ڈالتا ہے؟ لیکن میں نے جو نہ سمجھا وُہی کہایعنی اَیسی باتیں جو میرے لئے نہایت عجیب تھیں جنکو میں جانتا نہ تھا۔

4 میں تیری منت کرتا ہوں سُن ۔میں کچھ کہونگا ۔میں تجھ سے سوال کرونگا ۔تو مجھے بتا۔

5 میں نے تیری خبر کان سے سُنی تھے پر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے

6 اِسلئے مجھے اپنے آپ سے نفرت ہے اور میں خاک اور راکھ میں توبہ کرتا ہوں ۔

7 اور اَیسا ہُوا کہ جب خداوند یہ باتیں ایوب ؔ سے کہہ چُکا تو اُس نے اِلیفزؔ تیمائی سے کہا کہ میرا غضب تجھ پر اور تیرے دونوں دوستوں پر بھڑکا ہے کیونکہ تم نے میری بابت وہ بات نہ کہی جو حق ہے جیسے میرے بندہ ایوبؔ نے کہی ۔

8 پس اب اپنے لئے سات بیل اور سات مینڈھے لیکر میرے بندہ ایوب ؔ کے پاس جا ؤ اور اپنے لئے سوختنی قربانی گذرانو اور میرا بندہ ایوب ؔ تمہارے لئے دُعا کریگا کیونکہ اُسے تو میں قبول کرونگا تاکہ تمہاری جہالت کے مطابق تمہارے ساتھ سلوک نہ کروں کیونکہ تم نے میری بابت وہ بات کہی جو حق ہے جسے میرے بندہ ایوبؔ نے کہی ۔

9 سو اِلیفزؔ تیمانی اور بلدسؔ سُوخی اور صُنوفرنعماتی نے جاکر جیسا خداوند نے اُنکو فرمایا تھا کیا اور خداوند نے ایوبؔ کو قبول کیا ۔

10 اور خداوند نے ایوبؔ کی اسیری کو جب اُس نے اپنے دوستوں کے لئے دُعا کی بدل دیا اور خداوند نے ایوبؔ کو جتنا اُسکے پاس پہلے تھا اُسکا دوچند دیا۔

11 تب اُسکے سب بھائی اور سب بہنیں اور اُسکے سب اگلے جان پہچان اُسکے پاس آئے اور اُسکے گھر میں اُسکے ساتھ کھانا کھایا اور اُس پر نَوحہ کیا اور اُن سب بلاؤں کے بارے میں جو خداوند نے اُس پر نازل کی تھیں اُسے تسلّی دی۔ہر شخص نے اُسے ایک سکّہ بھی دیا اور ہر ایک نے سونے کی ایک بالی ۔

12  یوں خداوند نے ایوب کے آخری ایاّم میں اِبتدا کی نسبت زیادہ برکت بخشی اور اُس کے پاس چودہ ہزار بھیڑ بکریاں اور چھ ہزار اُونٹ اور ہزار جوڑی بیل اور ہزار گدھیاں ہوگئیں ۔

13 اُسکے سات بیٹے اور تین بیٹیاں بھی ہُوئیں ۔

14 اور اُس نے پہلی کا نام یمیمہ ؔ اور دوسری کانام قصیاہؔ اور تیسری کانام قرہُپّوکؔ رکھا ۔

15 اور اُس ساری سرزمین میں اَیسی عورتیں کہیں نہ تھیں جو ایوبؔ کی بیٹیوں کی طرح خوبصورت ہوں اور اُنکے باپ نے اُنکو اُنکے بھائیوں کے درمیان میراث دی۔

16 اور اِسکے بعد ایوبؔ ایک سوچالیس برس جیتارہا اور اپنے بیٹے اور پوتے چوتھی پُشت تک دیکھے۔

17 اور ایوبؔ نے بُڈھا اور عمر رسیدہ ہو کر وفات پائی ۔